دنیا کے خطرناک جزائر

دنیا کے خطرناک جزائر | نیلے صاف و شفاف سمندر سے گھرے جزیرے ہمیشہ سیاحوں کی کشش کا باعث ہوتے ہیں اور ہر مہم جو شخص ان جزیروں پر جا کر اپنی ساتی زندگی میں ایک سنسنی خیز تجربہ کا اضافہ کرنا چاہتا ہے

لیکن کیا آپ کو معلوم ہے کہ دنیا میں ایسے سے خطرناک جزیرے بھی ہیں، جن پر آپ کو زندگی کی رق تو دور بلکه قدم قدم پر موت بھی نظر آئے گی۔ کیوں کہ ماضی میں دنیا کو جن تشدد پسند افراد نے جنگ کے میدان میں جھونک دیا، انہوں نے اپنے اس شوق کو پورا کرنے کے لیے مہلک ترین اور تباہ کن نیوکلیائی ہتھیار بنائے اور اس کے تجربے اور اس کے بعد باقی ماندہ نیوکلیائی کچرے کو ٹھکانے لگانے کے لیے کئی مختلف جزیروں کا استعمال کیا۔ جس کی وجہ سے یہ جزیرے خطرناک کیمیائی مادوں کا گھر بن گئے۔ چلئے اہم آپ کو ان کے جزیروں کے بارے میں تفصیل سے بتاتے ہیں ۔

دنیا کے خطرناک جزائر | اوكونوشيما

یہ جزیرہ کبھی خرگوشوں کا جزیرہ کہلاتا تھا۔ اوکونو شیما جزیرے کو جاپان نے دوسری عالمی جنگ کے دوران اپنی زہریلی گیس فیکٹری کے طور پر استعمال کیا تھا اور اس گیس کا تجربہ خرگوشوں پر کیاجاتا تھا۔

حالانکہ جاپان نے جنگ کے دوران کسی بھی قسم کی زہریلی گیس استعمال نہ کرنے کے معاہدہ پر دستخط کیے تھے لیکن اس جزیرہ کو انتہائی راز میں رکھتے ہوئے اسے اپنے نقشے سے ہی غائب کر دیا۔

یہاں مجموعی طور پر6 کلو ٹن زہریلی گیس بنائی گی تھی۔ جنگ ختم ہونے کے بعد جب اتحادی فوج یہاں پہنچی تو اس نے یہاں موجود تمام زہریلی گیسوں کے ذخیرے کو ختم کردیا لیکن آج بھی یہاں زہریلی گیس کے اثرات پائے جاتے ہیں۔

دنیا کے خطرناک جزائر | فیرل لون جزیره

سان فرانسسکو کے ساحل پر واقع فیرل لون جزیرہ بہت خوبصورت ہے۔ یہاں قدرتی جنگلاتی ماحول کے ساتھ ساتھ وہیل، بیل، شارک مچھلیوں کے علاوہ سمندری پرندے بھی پائے جاتے ہیں لیکن اتنی ساری خوبصورتی کے باوجود یہ علاقہ سلامتی کے نقطہ نظر سے محفوظ نہیں ہے۔ ۱۹۴۶ء سے ۱۹۷۰ ء کے دوران اس علاقہ میں نیوکلیائی کثافت لال کر پھینکی جاتی تھی۔

ایک اندازہ کے مطابق یہاں تقریباً ۱۴۸ ہزار گیلن ڈرمنیوکلیائی کثافت سے بھرے موجود ہیں اور ماہرین کے مطابق اگر انہیں یہاں سے ہٹانے کی کوشش کی گئی تو اس کے خطرناک نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔ اس لیے یہ جیسے رکھے ہوئے ہیں، انہیں اسی حالت میں رکھا گیا ہے۔

بيكينى انول

مارشل جزیرے کے بیکینی اٹول علاقے میں ۱۹۴۶ء میں کئی نیوکلئیر دھماکوں کا تجربہ کیا گیا تھا، جسے آپریشن کر اس روڈ کا نام دیا گیا تھا۔ انہیں میں سے ایک بیکر دھماکہ بھی تھا ( او پر تصویر میں دیکھیں) جس کی وجہ سے ریڈیو ایکٹیو پانی کا اخراج ہوا تھا۔

اس کیمیائی اثر والے آلودہ پانی سے آس پاس کے سمندری علاقوں میں موجود کئی جہاز مخطر ناک تابکاری کثافت سے آلودہ ہو گئے تھے جنہیں اب تک پوری طرح سے صاف کر کے محفوظ نہیں بنایا جا سکا ہے۔ اس واقعہ سے متاثر ہو کر فلم کو از علی بنائی گئی تھی۔

سال ۱۹۶۸ء میں امریکی حکومت نے اعلان کیا تھا کہ بیکینی انول کو صاف کر کے رہنے کے لائق بنادیا گیا ہے۔ لیکن حکومت کا دعوی صحیح نہیں تھا۔ سال ۱۹۷۸ء میں فرانس کے سائنسدانوں نے یہاں کے مقامی افراد کے جسم میں اسٹر ولیم ۔ کی اونچی سطح پائی اور اس کی وجہ سے عام سنگین بیماریوں کے علاوہ خواتین میں حمل ضائع ہوئے کی بھی شکایت پائی گئی۔

اس انکشاف کے بعد مقامی آبادی نے یہ علاقہ چھوڑ دیا اور حکومت کے اصرار کے باوجود اس وقت تک یہاں آنے سے انکار کردیا، جب تک کہ علاقے کو پوری طرح سے تابکاری کے اثرات سے پاک نہیں کر دیا جاتا۔